بسم اللہ الرحمن الرحیم
الحَمدُ لِلّہ رَبّ العالَمین وَ الصّلاۃُ وَ السّلامُ علیَ اَشرَفِ الَانبیاءِ وَ المُرسَلین وَ سیّدِ بَریَّتِہِ
اَبوالقاسِمِ مُحَمّدؐ وَ عَلی آلِہ الطّیِبیّنَ الطّاہِرین وَ عَلی اَصحابہِ الموُمنین۔
ملت جعفریہ کی بے حسی، اور ایک ھولناک خطرہ کا سامنا!!
وای ناکامی متاع کاروان جاتا رہا کارواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا!!
وَاعتَصِموا بِحَبلِ اللّہِ جَمیعاً وَلا تَفرّقُوا قرآن پاک
تَعاوَنوا عَلَی البِّر وَالتّقوی وَلا تَعاوَنوُا عَلی الِاثمِ وَ العُدواَنِ قرآن پاک
مَن اَصبحَ وَ لَم یَھتَمّ بِامُورِ المُسلِمینِ فلَیسَ بِمسلم حدیث رسولؐ
من سَمعَ منادیًا یُنادِی یَا للمُسلِمین فَلم یَجبہُ فَلَیسَ بمُسلِم حدیث رسولؐ کریم
پاکستان میں ملت جعفریہ کی بحیثیت ایک قوم، نہ سیا سی نہ علمی نہ اقتصادی اور نہ ہی دنیائے ہنر اور صنعت میں کوئی اہمیت حاصل ہے،
بریلویوں کے پاس دس سال قبل ۰۰۴۲ دینی مدارس تھے، اور دیوبندیوں کے پاس ۰۰۸۸ بڑے دینی مدارس تھے۔!!
دارالعلوم کورنگی کئی سو ایکڑ پر مشتمل خود ایک بڑا شہر (سٹی) ہے جس میں پوری دنیا سے لاکھوں طالب علم پڑھتے ہیں، مفتی سلیم اللہ صاحب
(شاہ فیصل کالونی والے) کو ایک دیوبند سیٹھ نے (۰۵۳) ایکڑ زمین (حب) کی طرف سے عطیہ دی ہے جس میں پاکستان کا بڑا دارالعلوم،
یونیورسٹی، ٹیکنیکل سینٹرز ہسپتال وغیرہ وغیرہ۔۔۔۔اور پورا شہر (سٹی) آباد کرنا چاہتے ہیں۔
جبکہ پاکستان کی کل آبادی میں 40% چالیس فیصد سے زیادہ ملت جعفریہ پر مشتمل ہے، لیکن ہمارے پاس ایک جامع اور معیاری
دینی مدرسہ بھی نہیں ہے اعلی معیاری کالج اور یونیورسٹی تو در کنار! ملت جعفریہ کے پاس ایک صحیح اور معیاری اسکول بھی نہیں ہے! اور نہ
ہی مجلہ ہے! تو الیکٹرونک میڈیا کجا؟!!
ہمارے کتنے ہسپتال ہیں؟ اور کتنے بڑے کارخانے ہیں؟ اور کتنے اچھے اسپیشلسٹ ڈاکٹر ہیں؟ کتنے معیاری وکیل ہیں؟اور پروفیسر
حضرات کی تعداد کتنی ہے؟ آپ کے سامنے ہے!!
ایسے شرائط میں علماء کرام اور ملت کے نامور دانشوروں پر کیا فرائض ہیں؟ ملت جعفریہ کی تحقیر، تذلیل اور پسماندگی کو دیکھتے
رہیں، اور سکوت کے عالم میں رہیں؟ یا مذہب اور ملت کے فلاح و بھبودو ترقی کے لئے ہر ممکن اقدام کریں،شرعا اور سیاسی طور پر بھی
ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر ساکت کہیں رہ سکتے، چونکہ ملت جعفریہ کی سیاسی اور اجتماعی موت درحقیقت ہماری اپنی موت بھی ہے!!۔
کیا آپ کے علم میں ہے کہ شیعہ دشمن گروہ نے اقراء اسکول کے نام سے پانچ ہزار اسکول صرف کراچی سطح پر قائم کئے ہوے ہیں!!
اور شبی خون مارنے کیلئے ایک منظم اور مستعد فوج تیار کر رہے ہیں!! انکا پھلا سبق شیعہ کافر اور شیعہ دشمنی پر ہوتاہے!
ارشاد رسول پاک ؐہے کہ۔۔کُلّکُم رَاعٍٍ و َکُلّکُم مَسءُولٌ عَن رَعِیّتِہِ ۔۔تم میں سے ہر ایک چرواہا ہے، اور ہر
ایک اپنے متعلقین کا (ماحول) کا مسؤل بھی ہے۔
ان مذکورہ بالا آیات اور احادیث شریفہ کی رو سے ملت جعفریہ کے بے شمار مشکلات کے سامنے ہم سب علماء اور دانشوران ملت مسؤل ہیں،
لا تعلقی نہیں رکھ سکتے، یہ بھی افسوس کا مقام ہے کہ ہمارے بزرگان تقسیم کے بعدملت جعفریہ کے مسائل اور مشکلات کو حل نہ کرسکے، اور نہ ہی
ملت جعفریہ کو اعتماد میں لے سکے اس لئے کہ تعلیم یافتہ اور سرمایہ دار طبقہ اسلام اور علمائے کرام سے روز بروز نہ صرف دور تر ہوتے چلے گئے
بلکہ اکثر علماء سے متنفر ہیں!!
یہاں سوال یہ ہے کہ ان حالات کے پیش نظر، مقصر کون ہے؟ ملت جعفریہ یا علمائے کرام!
ملت جعفریہ کی مشکل اور ضرورت صرف دینی مدرسہ نہیں ہے بلکہ علمائے کرام کو چاہئے کہ ملت جعفریہ کی ہر مشکل حالت میں مدد کریں
ہمیں یہ بھی افسوس ہے کہ قم مقدسہ سے فارغ ہو کر طلاب کرام اپنے وطن تشریف لاتے ہیں، تو بزرگوں کی طرف سے ان سے نہ
صرف کسی قسم کی ہمدردی و سرپرستی نہیں ہوتی، بلکہ لاتعلقی محسوس ہوتی ہے!!
بڑی قومیں تعاون اور ہمکاری سے ترقی کی منازل طے کرتے ہیں، دیوبندی، بریلوی، آغاخانی تو ہم سے بہت آگے ہیں،
بوہری سے بھی ہم ہر فیلڈ میں کمتر ہیں!!
انفرادی کوششوں اور کاوشوں کا زمانہ نہیں رہا، اور نہ ہی وہ مفید اور مثمر ثمر ہے، ایران، لبنان میں اجتماعی کوششوں اور کاوشوں
سے ہی انہیں عروج ملا ہے۔ پاکستان میں سیاسی اور مذہبی جماعتیں اجتماعی کاوشوں سے ترقی کی ہے اور ہم لوگ مشکلات اور
خونخواردشمنوں میں گھر کربھی اپنی تمام تر مشکلات اور ملت جعفریہ کے ہزاروں مسائل کو انفرادی کاوش سے حل کرنا چاہتے ہیں!
مولی امام زمانہ ؑ یا ان کے نائب خاص اگر پاکستان تشریف لائیں، تو کیا صرف دینی مدارس بنائیں گے یا ملت جعفریہ
کے ہر دکھ درد کے لئے راہ حل تلاش کریں گے؟
ملت جعفریہ کے مسائل اورمشکلات اتنے زیادہ ہیں کہ ایک آدمی ان سب امور کے حل سے عاجز ہے، انفرادی کاوش مفید
اور مثمر ثمر نہیں ہے، لہذا ہم سب کو مل کر کام کرنا ہے، قرآن پاک کا بھی یہی حکم ہے۔۔ تَعاوَنُوا عَلیَ البّرِ َوالتّقوَی۔۔
یعنی نیک کاموں میں سب کو مل کر حصہ لیناہے اور اگر سکوت اختیار کریں گے لا تعلق رہیں گے تو اس آیت کے زد میں آئیں گے،۔
وَلا تَعاوَنوُا عَلی الِاثمِ وَالعُدوَان۔۔۔۔
بحمد للہ تعالی ہمارا ماضی بہت ہی تابناک اور درخشندہ ہے لکھنو (بھارت) دار العلماء اور مرکز مراجع تھا، پورا برصغیرلکھنو کے
مراجع کے تقلید میں تھے، اور صدیوں سے تقسیم ہند کے بعد تک، پورے یورپ، کل امریکہ اور تمام افریقہ میں لکھنو سے مبلغین
جا کر مجالس اور تبلیغی فرائض انجام دیتے تھے اور لکھنو کے مراجع نہ صرف پورے بر صغیر کے علمائے کرام کی خدمت اور سرپرستی
کرتے تھے، بلکہ نجف اشرف اور کربلائے معلی میں بھی شہریہ تقسیم کرتے تھے اور عراق کے تمام زیارات مقدسہ کی توسیع اور
مرمت کراتے رہتے تھے۔
آپ کو معلوم ہو کہ ایران اور عراق میں شیعہ فعالیات اکثرظالمانہ سیاست کی شکار رہیں ہیں، مگر متحدہ ہندوستان میں
ڈھائی سو سال سے زیادہ شیعوں کی نماز جمعہ مسلسل قائم رہیں۔
آئیں سب مل کر سابقہ اعزاز اور عظمت کو بحال کریں اور ملت جعفریہ کو ہر مشکل ہر ضرورت اور ہر مرحلے میں مدد کریں
اور حوزہ علمیہ (دینی مدرسہ) کے حوالے سے درجہ اجتہاد اور صاحب نظر کے حد تک خود کفا ہوجائیں،ایران، لبنان، عراق
اور عرب دنیا جیسی اگر اپنی ملت کی خدمت نہیں کر سکتے تو کم از کم پاکستان کے مذہبی جماعتوں جیسے کام کریں، ان سے تو
کم تر نہ رہیں!
امام خمینی ؒ کے حکم سے اسلامی جمہوریہ ایران میں علمائے کرام انقلاب کے بعد ہر چھوٹے بڑے شہراور ہر دیہات میں
لاکھوں اسکول قائم کئے اور ہر چھوٹے بڑے شہر میں ہزاروں کالج اور یونیورسٹیاں قائم کیں اور پورے ایران میں ہر چھوٹے
بڑے شہر میں ہسپتال اور ہر دیہات میں کلینیک قائم کیا گیا! اور دفاعی جنگی سازو سامان میں اب ایران تمام اسلامی ملکوں سے
آگے ہے! ہم نے اپنے ملت جعفریہ کو کیا دیا؟
یہ بات کتنی تکلیف دہ ہے کہ بر صغیر کے مسلمانوں کو ملک بنا کردیا محترم مرحوم قائد اعظم ؒنے اور راجہ محمود آباد نے اپنی
تمام دولت پاکستان بنانے میں خرج کی، یہ دونوں شیعہ رہنما تھے!اور اس ملک میں بالادستی عطاکی جائے ایک اسلامی ملک
کے حکم سے دیوبندی فرقے کو جو شیعوں کے قسم خوردہ دشمن ہیں!!
ستم بالائے ستم ایک اسلامی حکومت کے ایماء پر ان کے بڑے ارباب کے حکم سے بنائی گئی پالیسی کے تحت ملت جعفریہ
کو فوجی اور سول اداروں میں اہم مناصب سے محروم کیا جارہا ہے!
ڈی اینٹرنیشنل نیوز مورخہ ۵۲ ستمبر ۸۰۰۲ء میں شائع کامل حیات کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں اہل سنت کی دینی
مدارس کی تعداد چالیس ہزار سے (۰۰۰۰۴) زیادہ ہے!جبکہ رجسٹرڈمدارس کی تعداد صرف تیرہ سو ہے۔
عبدل نیشابوری نامی ایک محقق نے شہید فاونڈیشن پاکستان، کربلا ئے کوئٹہ، ورلڈ شیعہ فورم، اور کچھ دیگر اداروں کے حوالے
سے انٹرنٹ پر جو اعداد و شمار پوسٹ کیا ہے اس کی رو سے سن ۴۶۹۱ء مئی سن ۵۱۰۲ء تک (۴۴۶۳۲) ہزار شیعہ پاکستان میں انتہا
پسند دیوبندیوں کے ہاتھوں قتل کئے گئے ہیں۔!
افسوس صد افسوس ہمارے سابقہ نجفی علمائے کرام اور لکھنو (دارالعلم والعلماء) سے تقسیم کے بعد آئے ہوئے علمائے کرام، سادگی
کے باعث ملت جعفریہ کے لئے پاکستان میں کوئی بڑا کام انجام نہیں دے سکے، جب کہ ہر بڑے شہر کے اطراف میں ہزاروں
ایکڑ سستی زمین موجود تھیں اور انکے پاس مالی وسائل بھی موجود تھے۔
برادرعزیز کب تک ہم خواب غفلت میں پڑے رہیں گے؟!!
بیدار شو! ہوشیار شو! اور جو کچھ ملت جعفریہ کے لئے کرسکتے ہو آج کرو، کل دیر ہے۔
کلّکُم رَاع وَ کلّکُم مسؤل عَن َرعیّتِہِ قرآن کریم
قُوا اَنفُسَکُم وَ اہلِیکُم ناراً قرآن کریم
اب آپ تازہ دم مخلص اور قوم و ملت کے لئے دردرکھنے والے علمائے کرام اور دانشوران معظم سے ہی وابستہ ہیں،
آئیں ہمت کریں، اور رکود اور جمود توڑیں، قیام کریں اور ملت جعفریہ کے فلاح و بہبود کے لئے کام کریں،
ہم بھی عزم راسخ، جذبہ خدمت و ایثار و ایمان محکم، اور اتحاد باہمی تعاون سے اللہ تعالی، رسول معظمؐ اور اہل بیت ؑ،بالخصوص مولی
امام زمانہؑ کی مدد سے کامیاب اور منظم قوموں جیسے مذہبی اورفلاحی کاموں کو وسعت دے سکتے ہیں، آئیں ملت واحدہ بن کر اور باہمی
تعاون سے کراچی اور اندرون سندھ اور ملک کے ہر صوبے اور دوسرے ممالک میں ملت جعفریہ کے عظیم کارناموں کو پھیلائیں۔
یدُ اللّہ معَ الجَماعَۃ، اِن شاءَ اللّہ تعالی وَ بفَضلِہ ومنہَّ وَ اِحسَانِہ۔
سفینۃ النجات ٹرسٹ (رجسٹرڈ) کراچی